Search This Blog

Sunday, January 8, 2017

لکھنے میں سستی پر کیسے قابو پائیں؟



لکھنے میں سستی پر کیسے قابو پائیں؟

وہ کون سے عوامل ہیں جو لکھنے میںرکاوٹ بنتے ہیں اور ان پر کیسے قابو پایا جائے؟


اگر لکھنا آپکا پیشہ ہے یا آپ شوقیہ لکھتے ہیں تو کیا کبھی آپ کے ساتھ ایسا ہوتا کہ ڈرائیونگ کرتے ہوے یا برتن دھوتے ہوے آپکا دماغ آئیڈیاز سے پک رہا ہو مگر جیسے ہی آپ لکھنے کا ارادہ کریں آپکا دماغ امتحان کی تیاری کرنے والے بچے کی طرح فرار حاصل کرنے کی کوشش کرے؟ آپکو وارڈروب کی صفائی یاد آ جائےیا کسی بہت عزیز رشتے دار یا دوست کو فون کرنا یا اور کچھ نہیں تو فیس بک یا وہاٹس ایپ کے میسجز چیک کرنا زیادہ اہم محسوس ہو؟ یا آپ بوریت محسوس کریں اور ذہن خالی ہو جاۓ؟ یا پھر لکھنے سے بچنے کے لئے آپ مزید ریسرچ کرنا شروع کریں اور آپ کی معلومات تو بہت بڑھ جائیں مگر ذہن پراگندہ ہو جائے اور لکھنے کا کام التوا میں پڑ جائے؟ 


لکھنے میں سستی ایک ایسا عمل ہے کہ شاید ہی کوئی لکھنے والا اس سے بچا ہوا ہو. بعض اوقات ہم مہینوں بلکہ سالوں آئیڈیاز ذہن میں رکھ کر لکھنے کی منصوبہ بندی  کرتے رہتے ہیں اور وقت اور مواد ہونے کے باوجود سستی کی وجہ سے ایک مضمون بھی  لکھنے میں بھی کامیاب نہیں ہوتے.  انگریزی زبان میں ایک لکھاری کی ایسی کیفیت کو جو  لکھنے کی راہ میں  رکاوٹ ثابت ہو رائیٹرز بلاک کہا جاتا ہے. رائٹرز بلاک ایک ایسی کیفیت کا نام ہے جس میں لکھاری تخلیقی تعطل یا سست روی کا شکار ہو جاتا ہے. اور یوں لکھنے کا عمل عارضی یا مستقل طور پر رک جاتا ہے.آئیے جائزہ لیں رائٹرز بلاک کی کیا وجوہات ہو سکتی ہیں اور ان پر کیسے قابو پایا جا سکتا ہے؟ لکنے میں رکاوٹ ڈالنے والے عمومی وجوہات میں وقت کی کمی، سستی، ہمارا منظم نہ ہونا   سر فہرست  ہیں.  کبھی کبھی یہ احساس کے ہم جو لکھ رہے ہیں وہ معیاری نہیں بھی ہمیں مایوس کر دیتا ہے اور ہم لکھنا چھوڑ دیتے ہیں یا اسے ملتوی کر دیتے ہیں.

اس سلسلے میں ہم سب متفقہ طور پر جس مسئلہ  کا شکار ہیں وہ ہے وقت کی کمی. واقعی آج کی مصروف زندگی میں لکھنا کسی فارغ بندے کا کام لگتا ہے جسے  دنیا میں کوئی اور کام نہ ہو. مگر کیا ہم نے کبھی غور کیا ہے کے ہم سوشل میڈیا پر کتنا وقت  گزا رتے ہیں؟ کبھی کبھی فیس بک کی ایک پوسٹ پر بحث میں گھنٹے سے زیادہ لگا دیتے ہیں لیکن  دلائل کے بے ترتیب ہونے کی وجہ سے دوسرے کو قائل نہیں کر پاتے. یاد رکھیں فیس بک پر آپ کتنی ہی مدلل بات کریں اسکی پوسٹ کا دورانیہ دو چار دن سے زیادہ نہیں ہوتا. اسکے بجاۓ اگر اسی موضوع پر تھوڑا سا ٹائم لگا کر آوٹ لائن بنا لی جاۓ. دلائل کو ترتیب دے لیا جائے اور بلاگ پوسٹ کی شکل میں اسے شئیر کیا جاۓ تو نہ صرف اسکی افادیت بڑھ جاتی ہے بلکہ آپ وقتاً فوقتاً اسی موضوع پر مزید کام  کر کے اسے کسی اچھے جریدے میں شائع کروا کے بہت بڑی تعداد میں لوگوں تک اپنا پیغا م پہنچا سکتے ہیں. سوشل میڈیا کا ضرورت سے زیادہ  استمعال وقت کی کمی کی ایک بڑی وجہ ہے مگر روز مرہ کے اوقات کا جائزہ لیں تو ہم اور وجوہات کا بھی تعین کر سکتے ہیں. اگر وقت کی کمی واقعی مسئلہ ہے تو اپنے روز مرہ کے کاموں کی لسٹ بنائیں اور خود فیصلہ کریں اپنا  وقت جن  سرگرمیوں میں لگایا ان میں سے کتنی مفید یا productive تھیں اور کتنی بے فائدہ اور unproductive. روز رات کو اس لسٹ کا جائزہ لیکر آہستہ آہستہ فضولیات کو اپنی زندگی سے کم کریں. یاد رہے  بعض اوقات ہم تفریح اور علم  کے حصول کو unproductive سرگرمی شمار کرتے ہیں مگر اگر یہ ایک حد کے اندر ہیں تو یہ ہمارے تخلیقی کام میں معاون ہوتی ہیں.  ہمارا  دین ہمیں اعتدال کی تعلیم دیتا ہے چاہے وہ عبادات ہوں یا دنیوی تفریح. مگر انٹرنیٹ کے اس دور میں خالی از ذہنی کے ساتھ ویب پیجز کی ورق گردانی بھی مفید ہونے کے بجائے ہمارے وقت کے ایک بڑے حصے کو کھا جاتی ہے. الله سے یہ دعا ضرور کریں کے وہ علم نافع دے اور اوقات میں برکت دے مگر خود اپنا احتساب بہت ضروری ہے.  
      

خود احتسابی کے ساتھ سستی سے بچنے کا ایک اچھا نسخہ پلاننگ ہے. روز رات کو ان موضوعات کی لسٹ بنائیں جن پر لکھنا چاہتے ہیں. تاکہ دوسرے دن جب لکھنے بیٹھیں تو نئے سرے سے کام شروع نہ کرنا پڑے. اگر موبائیل یا کمپوٹر پر نوٹس لینے کی عادت ہے تو جو خیالات کسی موضوع سے متعلق  ذہن میں آئیں انھیں اپنے آپکو ای میل  کر دیں یا نوٹ پیڈ پر نوٹ کر لیں. فارغ وقت میں اس پر سوچ بچار کرتے رہیں. جسمانی محنت کے کاموں کے دوران  مثلاً ورزش،  گھر کے کام کاج یا ڈرائیونگ کے دوران  کبھی کبھی ہاتھ مصروف ہوتے ہیں مگر ذہن نسبتاً  فارغ. ایسے موقعوں سے فائدہ اٹھائیں اور اپنے منتخب موضوع پر مزید سوچ بچار کریں.  اپنے کسی ہم خیال دوست یا گھر کے کسی فرد سے بھی موضوع پر مزید بات چیت کی جا سکتی ہے.  

سستی سے بچنے کا ایک طریقہ یہ بھی ہے کہ جو کچھ پہلے لکھا ہے اسے بار بار پڑھیں. یہ آپکی تحریر  کو نکھارنے اور غلطیاں حذف کرنے کا ذریعہ بھی بنے گا اور تحریر کو مزید ترتیب بھی دے گا. معروف  مصنف ارنسٹ ہیمنگوے اپنی زیر تحریر ناول یا افسانوں کو روز پڑھتا تھا. اور ساتھ ساتھ اپنی تحریر کی نوک پلک بھی سنوارتا جاتا تھا. یہ چیز سستی کو ختم  کرنے کے ساتھ منظم ہونے میں بھی  بہت معاون ثابت  ہوتی ہے.  یادرہے  وہ  کاغذ اور قلم  کے علاوہ ٹائپ رائٹر استمعال کرتا تھا جسمیں تبدیلی کی صورت میں پرانے ڈرافٹ کو تلف کرنا پڑتا تھا. آج ہم ایک ہی ڈرافٹ کو بغیر تلف کئے سیکڑوں مرتبہ تبدیل کر سکتے ہیں. 

اپنے آپ کو منظم کرنے کے لئے کسی نوٹ بک یا سافٹ ویئر مثلاً ای میل یا کسی موبائل ایپلیکیشن پر مسلسل نوٹس لینے کی عادت ڈالیں. مثلا ً کوئی نیا موضوع ذہن میں آیا تو لکھ لیا. فارغ وقت میں ان موضوعات کو کھول کر انکی آؤٹ لائن بنا لیں یا مزید اضافہ کر لیں، اس موضوع سے متعلق کوئی مشاہدہ یا مواد مزید کہیں نظر آئے تو اسکا ریفرنس نوٹ کر لیں. اگر ویب پر ہے تو اسکا لنک محفوظ کر لیں. اس طرح اگر فوری کسی موضوع پر کام کرنے کا وقت نہیں بھی ہے تو جب موقعہ ملے اس پر کام کا آغاز کیا جا سکتا ہے.ہم  ذاتی طور پر اپنے جی میل اکاؤنٹ کو نوٹ بک کی طرح استعمال کے  عادی ہیں. اگر سبجیکٹ لائن کا انتخاب سمجھداری کے ساتھ کیا جائے تو مستقبل میں سالوں بعد بھی  اسے سرچ کرنا آسان ہو جاتا ہے.       
تخلیقی صلاحیت کے ساتھ ساتھ ایک لکھاری کا بہت بڑا سرمایہ اسکا  تنقیدی ذہن ہوتا ہے لیکن کبھی کبھی یہی خوبی اسکے کام میں رکاوٹ بنتی ہے جب یہ احساس ہمیں آگے لکھنے سے روکتا ہے کے ہم اچھا نہیں لکھ رہے اور لکھنے کے دوران اپنے کام  پر تنقید مایوسی کا باعث بن جاتی ہے. خصوصاً نئے لکھنے والے کو یہ احساس بہت تنگ کرتا ہے. 

اس مسئلہ کا حل یہ ہے کہ پہلا ڈرافٹ لکھتے وقت اس احساس کو کہ  ہم اچھا نہیں لکھ رہےنظرانداز کر دیں. اپنے کام پر تنقید کو عارضی طور پر پس پشت  ڈال دیں. آوٹ لائین بنا کر مضمون یا کہانی پورا کرنے کی کوشش کریں. اپنے آپ کو یقین دلائیں کے ایک دفعہ مضمون پورا ہونے کے بعد اس میں بہتری کی ہزار موقعے ملیں گے. لیکن اگر تنقید کی وجہ سے اسے ادھورا چھوڑ دیا تو ساری محنت بیکار ہو جائے گی. ایک اور طریقہ یہ ہے کے اپنے آپ کو یقین دلائیں کہ برا لکھے بغیر اچھا نہیں لکھا جا سکتا اور یہی حقیقت بھی ہے. بعض اوقات برمحل لفظ ذہن میں نہیں آ رہے  ہوتے یا اردو لکھتے وقت انگریزی کے لفظ جملہ مکمل کر رہے  ہوتے ہیں. کوئی بات نہیں. آپ پوری توجہ اپنا متن مکمل کرنے اور اپنے ذہن میں آنے والے  تخلیقی خیالات کو کاغذ یا سافٹ وئیر ایڈیٹر پر منتقل کریں. الفاظ کے متبادل ڈھونڈنے کے موقعے ایڈیٹنگ کے دوران بہت ملیں گے مگر جو تخلیقی خیالات آپکے ذہن میں آ رہے ہیں ان کے بہاؤ کو نہ روکیں. جب آپکا مضمون آغاز سے اختتام تک مکمل ہو جائے جسے انگریزی میں اسٹوری یا narrative کہا جاتا ہے توایڈیٹنگ کا مرحلہ آتا ہے اور تنقید کا کردار شروع ہوتا ہے. 

بعض اوقات ہم معیاری اور اچھے کام کے لئے ریسرچ کی کمی کو بہانہ  بنا کر لکھنے کو موخر کرتے رہتے ہیں. اور انٹرنیٹ اور ڈس انفارمیشن کے دور میں ضرورت سے زیادہ تحقیق کو سمیٹنا مشکل ہو جاتا ہے. لکھنے سے پہلے اپنے ہدف کا تعین کریں اور موضوع کا خلاصہ ایک یا دو جملوں میں اپنے سامنے رکھیں. ویب پیجز کی ورق گردانی میں focused رہنا آسان کام نہیں. کبھی کبھی زیادہ ریسرچ آپکو distract بھی کر دیتی ہے. بس اپنے مضمون کے scope کو یاد رکھیں کہ آپ اخبار کا اداریہ لکھ رہے ہیں یا ریسرچ پیپر تاکہ ریسرچ کی مقدار کا تعین کرنا آسان ہو.  

لکھنے میں تسلسل کی عادت بھی رائٹرز بلاک سے بچنے میں آپکی مدد کرے گی. تھوڑا لکھیں لیکن روز لکھیں. پیارے رسول صلیٰ علیہ وسلم کے اسوے اور اقوال سے ہمیں کاموں کو ایک تسلسل کے ساتھ کرنے کی ہدایت ملتی ہے چاہے وہ چھوٹے ہی کیوں نہ ہوں. رسول الله کا ارشاد ہے،  فَإِنَّ خَيْرَ الْعَمَلِ أَدْوَمُهُ وَإِنْ قَلَّ بہترین عمل وہ ہیں جو مداومت کے ساتھ کئے جائیں  چاہے چھوٹے ہی کیوں نہ ہوں. (ابن ماجہ 4240)



یاد رہے اگر آپ لکھنا چاہتے ہیں یا سمجھتے ہیں کہ آپ میں تخلیقی کام کی صلاحیت ہے تو آپکو اس کے لئے با قاعدہ پلاننگ کرنی ہوگی  اور اپنے اوقات سے ایک ایک کر کے غیر مفید سرگرمیوں کو چھانٹ کر الگ کرنا ہو گا. آپ نے  اپنے آپکو  زندگی کے دھا رے پر چھوڑ دیا تو زندگی یوں بھی گزر جائے گی لیکن اگر معاشرے اور انسانیت کی بہتری کے لئے آپ کردار ادا کرنا چاہتے ہیں اور آپکی خواہش ہے کہ آئندہ نسلوں کے لئے کچھ صدقہ جاریہ چھوڑ کر جائیں  تو اپنے اوقات اور عادات کو منضبط کرنا ہو گا اور تسلسل کے ساتھ اپنی صلاحیت کی نشونما کرنی ہوگی.

2 comments:

  1. Very helpful article for writers thanks.

    ReplyDelete
  2. بہت اچھی تحریر ہے نئے لکھاریوں کے لئے مفید ہے

    ReplyDelete