جانے نہ جانے گل ہی نہ جانے
تزئین حسن
![]() |
| گیشا برم دنیا کی گیارہویں بلند ترین چوٹی ہے By Dr. Olaf Rieck autorized to publish it under CC-BY-SA-3.0 |
مشرق وسطیٰ میں رہائش اور ہوم اسکولنگ کے دوران اپنے بچوں کی کتابیں پوری پوری پڑھنا میرا سب سے دلچسپ مشغلہ رہا. بہت کچھ سیکھنے کا موقع ملتا جو اپنے بچپن میں سیکھنے کا موقع نہ ملا. بچے ڈیڑھ دو سو کلو میٹر دور تبوک شہر کے ایک انڈین اسکول میں رجسٹرڈ تھے مگر انکو پڑھانا اور نصاب کی تکمیل میری ذمہ داری تھی. غالباً سن 2009 کی بات ہے. بچوں کے انگریزی کے انڈین نصاب میں بچندری پال نامی خاتون کے بارے میں پڑھنے کا اتفاق ہوا. یہ بھارت کی پہلی خاتون تھیں جو ماؤنٹ ایورسٹ تک پہنچیں.
بھارتی نصاب پڑھاتے ہوئے میری کوشش ہوتی کہ جہاں ایسے موضعات سامنے آئیں جس سے بچے کو اسکی قومی شناخت دی جا رہی ہو اور اس پر فخر کرنا سکھایا جا رہا ہو وہاں میں بچوں کو پاکستان کی شناخت بھی موضوع کے حوالے دینے کی کوشش کروں.
2009 تک کسی پاکستانی خاتون نے ماؤنٹ ایورسٹ فتح نہیں کیا تھا مگر میرے علم میں تھا کہ مردوں میں یہ کام کوئی کر چکا ہے. مگر کورس میں تو دور کی بات نظیر صابر یا کسی پاکستانی کوہ پیما کی بارے میڈیا میں بھی خانہ پر کے طور پر ہی اخبارات میں مضامین آتے تھے. میں نے گوگل کیا اور فیس بک پر نذیر صابر سے رابطہ کیا. انہوں نے کمال محبت سے مجھے اپنے بارے میں اور پاکستانی کوہ پیماؤں کے بارے میں ایک آدھ لنک بھیجا جس کی مدد سے میں نے بچوں کو بتایا کے پاکستان میں بھی کوہ پیما پائے جاتے ہیں. اسی طرح کارگل کی جنگ کے بارے میں چوتھی یا پانچویں جماعت کے انگریزی کے نصاب میں پڑھ کر بھی مجھے بہت حیرت ہوئی کہ بھارتی کورس کس قدر جدید بنیادوں پر ڈیزائن کیا جاتا ہے. ہمارے ہاں تو کارگل کی جنگ پر کرنٹ افیئرز کے طور پر ٹی وی ٹاک شوز یا اخباری مضامین میں مخالف کو زیر کرنے کے لئے ہی بات ہوتی ہے.
ایسے میں ثمینہ بیگ یا کسی بھی پاکستانی کوہ پیما کے بارے میں کوئی مضمون اگر سرکاری یا پرائیویٹ کسی بھی نصاب میں شامل ہو گا تو مجھ سمیت بہت سی اپنی شناخت پر فخر کرنے والے پاکستانیوں کو خوش گوار حیرت ہو گی. ہمارے ہاں مغرب کی تقلید میں ملالہ اور گلالئی کی بہن پر بات کرنا تو فخر کا باعث سمجھا جاتا ہے مگر جو پاکستانی خواتین معمولی وسائل میں غیر معمولی کام کر رہی ہیں انکا ذکر شاید ہی کیا جاتا ہو.
پورا مضمون پڑھیں
پچھلے سال ڈان میں کے ٹو بیس کیمپ تک پہنچنے والی ایک ٹیم کے بارے میں مضمون پڑھ کر بہت افسوس ہوا کے ڈان جو پاکستان کا ایک انتہائی مؤقر اخبار ہے کہ ایڈیٹر کو یہ نہیں معلوم تھا کہ کی ٹو دنیا کی دوسری سب سے اونچی پہاڑی چوٹی ہے. مضمون کے آغاز میں کے ٹو کا تعارف محض پاکستان کی سب سے بلند چوٹی کہہ کر کروایا گیا تھا. (K2 — the highest mountain in Pakistan) . اچھی عزت افزائی ہے.
ایسی خبریں یا مضامین جب پاکستانی میڈیا میں سامنے آتے ہیں تو سچی بات ہے دل بہت بے چین ہوتا ہے کہ پاکستانی نصاب اور میڈیا قوم کے بچوں اور بڑوں کو پاکستانی سر زمین اور شناخت پر فخر کرنا کیوں نہیں سکھاتے؟ پاکستانی الیکٹرانک نیوز میڈیا دنیا کا سرگرم ترین میڈیا ہے مگر پاکستانی معاشرے اور ثقافت کے مثبت پہلو سامنے لانے میں اسکا کیا کردار ہے؟
اس بات کی تو امید ہی فضول ہے کہ ہمارے بچوں کو چھوڑ پڑھے لکھے بڑوں کو بھی یہ حقیقت معلوم ہو کہ دنیا میں آٹھ ہزار میٹر سے بلند کل چودہ چوٹیاں ہیں جن میں سے پانچ پاکستان میں ہیں. استثنیٰ موجود ہے لیکن نصاب اور میڈیا کا اس میں شاید ہی کوئی کردار ہو؟ انکے نام اور مقام ؟کن پہاڑی سلسلوں میں ہیں؟ اس حقیقت کا بھی کم ہی لوگوں کو علم ہے کے دنیا کے بلند ترین تین پہاڑی سلسلے ہمالیہ، قراقرم اور ہندو کش تینوں جگلو ٹ کے مقام پر ایک دوسرے سے ملتے ہیں.
2014 میں کینیڈا منتقلی کے بعد یہ راکیز کے پہاڑی سلسلوں میں گلیشیئرز کے پانیوں کے بہاؤ سے وجود میں آنے والی خوبصورت کھائیوں کا تجربہ ہوا تو ریسرچ کے دوران یہ بات سامنے آئی کہ دنیا کی سب سے گہری کھائیاں قراقرم ہائی وے اور دریائے سندھ کے سنگم پر پائی جاتی ہیں.
نوٹ: راقم کی بات سے کوئی یہ نہ سمجھے کہ وہ پاکستانی معاشرے پر کسی مثبت تنقید کے خلاف ہے مگر کینیڈا امریکہ سمیت دنیا بھر میں نصاب کا کام طلبہ کو قومی اور ثقافتی شناخت دینا ہوتا ہے اور میڈیا کا کام اچھے اور برے دونوں پہلو قوم کے سامنے رکھنا.

No comments:
Post a Comment